مسائل وفتاویٰ

 

 

            سوال: میرا بھائی میڈیکل کا طالب ہے، اس کو کاپیوں اور امتحانات میں اعضاء اور جاندار مخلوق کا ڈائیگرام(نقشہ/خاکہ) بنانا پڑتاہے توکیا یہ اس کے لیے جائز ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            الجواب وباللّٰہ التوفیق

            حامدًا ومصلیًا ومسلما مکمل تصویر کے بغیر انسانی اعضاء کا الگ الگ خاکہ بنانا جائز ہے؛   البتہ سر کے ساتھ تصویر بنانا جائز نہیں ہے اور جاندار مخلوق کا ڈائیگرام بنانا، جس میں اعضاء کے ساتھ سر کا بھی نقشہ بنایا جائے ؛ جائز نہیں ہے ؛ اس لیے حتی الامکان جاندار کی تصویر بنانے سے بچیں۔ عن عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال: سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول: إن أشد الناس عذابًا عند اللہ یوم القیامۃ المصورون۔ (صحیح البخاری، کتاب اللباس / باب عذاب المصورین یوم القیامۃ ۸۸۰/۲ رقم: ۵۹۵۰ دار الفکر بیروت، صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینۃ / باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان الخ ۲۰۰/۲ رقم: ۲۱۰۹ بیت الأفکار الدولیۃ، مشکاۃ المصابیح ۳۸۵) ظاہر کلام النووی فی شرح مسلم: الإجماع علی تحریم تصویر الحیوان۔ (شامی، کتاب الصلاۃ / باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ ۴۱۶/۲ زکریا، ۶۴۷/۱ دار الفکر بیروت، وکذا فی فتح الباری ۳۸۴/۱۰) قال أصحابنا وغیرہم من العلمائ: تصویر صور الحیوان حرامٌ شدید التحریم وہو من الکبائر؛ لأنہ متوعد علیہ بہٰذا الوعید الشدید المذکور فی الأحادیث، یعنی مثل ما فی الصحیحین عنہ صلی اللہ علیہ وسلم أشد الناس عذابًا یوم القیامۃ المصورون، یقال لہم أحیوا ما خلقتم‘‘ … وسواء کان في ثوب أو بساطٍ أو درہم ودینارٍ وفلس وإنائٍ وحائطٍ وغیرہا، فینبغي أن یکون حرامًا لامکروہًا إن ثبت الإجماع أو قطیعۃ الدلیل لتواترہ۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ / باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ۴۸/۲ زکریا) ۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب                                                                                                                                                         

                                    محمدمصعب عفی عنہ

            الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی

                        مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

===========================

            سوال: میرا سوال انسان کے بنائے قانون کے بارے میں ہے کہ یہ شرک اور کفریہ ہیں یا نہیں؟میں مغربی بنگال میں ضلع مجسٹریٹ ہوں، مجھے ٹریفک کی خلاف ورزیاں، گلی سڑکوں کے جھگڑے اور دوسرے چھوٹے چھوٹے معاملات کو سننے پڑتے ہیں، مجھے ضلع میں لاء اور آرڈر کو برقرار رکھنا پڑتاہے۔

            (۱)       سوال یہ ہے کہ یہ شرک ہے ؟ یا حرام ہے؟ یا ٹھیک ہے؟کیوں کہ مجھے آئین( جو کہ انسان کا بنایا ہوا قانون ہے) کو ماننا پڑتاہے ۔ براہ کرم، کچھ حوالے کے ساتھ جواب دیں۔

            (۲)       اس بات کی بھی وضاحت فرمائیں کہ کیا ووٹ دینا جائزہے ؟

            (۳)      ایسے لوگوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو کہتے ہیں کہ ووٹ دینا یا قانون کو ماننا شرک ہے؟

            بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، حامدًا ومصلیًا ومسلّما، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ۔

            (۱) انسان کا بنایا ہوا ہر قانون کفریہ یا شرکیہ نہیں ہوتا؛ البتہ جو قانون قرآن و حدیث سے قطعیت کے ساتھ ثابت شدہ قانون کے خلا ف ہو اور کوئی مسلمان اسے بہ نظر استحسان دیکھ کر عمل درآمد کرے یا کرائے تو یہ کفر ہے، اگر بہ نظر استحسان تو نہیں دیکھتا؛ لیکن کسی مجبوری میں عمل درآمد کرلیتا ہے یا کرالیتا ہے تو یہ کفر نہیں؛ البتہ فسق اور بڑا گناہ ضرور ہے (دیکھیں: تفسیر عثمانی، ص: ۱۵۲، معارف القرآن: ۳/۱۶۵، تفسیر آیت کریمہ: ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فاولئک ہم الکافرون) اور شریعت نے جن جرائم پر کوئی سزا مقرر نہیں کی ہے؛ بلکہ مسلمان حکام کی صواب دید پر چھوڑی ہے، ان کے بارے میں جو قانون غیر مسلم حکومت دفعِ ظلم کے مقصد سے بنائے اس پر عمل درآمد کرانا بھی گناہ نہیں ہے بہ شرطے کہ سزا کے سلسلے میں جو عام اسلامی اصول ہیں ان کے خلاف وہ قانون نہ ہو۔ بہرحال اگر آپ اسلامی قوانین ہی کو حق جانتے ہیں، ان کے بالمقابل ملکی قوانین کو ترجیح نہیں دیتے تو صورت مسئولہ میں آپ کے لیے بہ حیثیت ’’ضلع مجسٹریٹ‘‘ کام کرنے کی گنجائش ہے خصوصاً اس لیے بھی کہ اس زمانے میں اچھے مسلمانوں کا اس طرح کے عہدوں پر ہونا اہل اسلام کے اجتماعی مفاد کے لیے بہت مفید ہے؛ لیکن بہرحال آپ پر ضروری ہے کہ قرآن و حدیث سے متصادم قوانین کی تنفیذ سے حتی الامکان اپنے آپ کو بچائیں، نزاعی معاملات میں حکم صادر کرنے کے بجائے صلح و صفائی سے انہیں نمٹانے کی کوشش کریں، پنالٹی اور جرمانہ عائد کرنے سے احتراز کریں، اس کے بالمقابل حبس وقید کی سزا کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ آپ اگر کسی اچھے عالم یا مفتی سے ذاتی تعلقات قائم کرکے مشتبہ امور میں ان سے مشورہ کرکے فیصلہ کیا کریں تو یہ آپ کے لیے بڑا اچھا ہوگا۔ اور ساتھ ساتھ اللہ سے ہمیشہ توبہ واستغفار بھی کرتے رہیں۔

            (۲) ووٹ دینا شرک یا کفر نہیں، جائز ہے۔ (دیکھیں: فتاوی دارالعلوم: ۱۷/۳۵۷، جواہر الفقہ: ۲/۲۹۲، قدیم) 

            (۳) جو لوگ ’’ووٹ‘‘ دینے کو شرک کہتے ہیں، ان کی بات درست نہیں ہے، اسی طرح انسان کے بنائے ہوئے قانون کو مطلقاً کفر یا شرک کہنا بھی درست نہیں، اس کی کچھ تفصیل سوال نمبر ایک کے جواب کے تحت گذر چکی ہے۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

                                    محمد اسد اللہ غفرلہ

            الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ

                        مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

*  *  *

------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم‏، شمارہ: 12،  جلد:101‏، ربیع الاول –ربیع الثانی 1439ہجری مطابق دسمبر 2017ء